Ali Rajan

Darbar Ali Rajan Sarkaar r.a (Layyah) Must Watch




آپ کا پورا نام سید راجو بن سید حامد الحسینی البخاری الھندی ہے جسے ہم حضرت پیر محمد علی راجن شاہ سدا بھاگ کہتے ہیں ۔ آپ کی پیدائش تقریباً 900ھ1490ئ کی ابتدا میں اوچ شریف کے محلہ بخاریاں سادات موجودہ ضلع پہاولپور میں حضرت سید حامد الحسینی البخاری الھندی کے گھرانہ فضیلت میں ہوئی اور اپنے دادا محترم سید محمد کیمیا ئ نظر کی حیات طیبہ میں صدف پاک مادر سے آ غوش سید الا اولیا میں تشریف لائے۔آپ کی والدہ ماجدہ بی بی وڈی بنت دادن لنگاہ تھیں ۔آپ کی تعلیم و تربیت اپنے دادا محترم شیخ کیمیائ نظر کی آغوش میں ہوئی ۔آپ کی وفات پندرھویں صدی کے آخر ی نصف ایام میں ہوئی۔آپ کی آخری رسومات قاضی نور اللہ شوستری نے اور آپ کے پوتے سید شیخ حسن جہانیاں اور فرزند مخدوم سید غلام علی شاہ نے ادا فرمائیں ۔اسی روضہ پاک والی جگہ پر آپ کو دفن کیا گیا۔ واللہ العالم بحقائق الا سرار۔ آپ کا تذکرہ اپنے وقت کے مراجع اعظم علامہ سید نور اللہ شوستری نے اپنی کتاب "مجالس المومنین"میں صفحہ926پر اس طرح کیا ہے۔ آپ ایک عالم فاضل اور صاحب کرامت بہادر اور نیک سیرت انسان تھے۔آپ نے اہل ہند کو بہت زیادہ تبلیغ فرمائی اور خاص طور پر آپ نے بلوچ قوم کو اپنے آبائو اجداد کے مذہب سے روشناس کرایا ۔اور آپ نے اپنے خاندان کے مدت مدید کے تقیہ کو چھوڑ کر اپنے مذہب (شیعہ اثنا عشری) کا پرچار کیا۔سید راجو شاہ (حضرت پیر محمد علی راجن شاہ) نے تقیہ نہیں کیا تھا وہ علی الا علان مذہب شیعہ کی تبلیغ کرتے تھے اسی لیے ان کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔کسی خیر خواہ نے ان سے کہا آپ اگر تقیہ کر لیں تو آپ کے لیے مناسب ہو گا۔آپ نے فرمایا اگر میں نے تقیہ کیا تو مجھے اندیشہ ہے کہ میری اولاد خارجی ہو جائے گی۔واقعی سید موصوف نے خود تو تکالیف برداشت کیں لیکن اپنی اولاد کو ناصبی ہونے سے بچا لیا۔ حضرت پیر محمد علی راجن شاہ صاحب اپنے وقت کے مجتہد سید اور صاحب کرامت بزرگ تھے۔مولانا وصی حیدر مرحوم اعلیٰ اللہ مقامہ نے1980ئ میں اپنے رسالے نادرۃالزمن کے صفحہ2پر اپنے استاد علامہ سید محمد یار شاہ صاحب اعلیٰ اللہ مقامہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ شہید ثالث علامہ قاضی نور اللہ شوستری کوحضرت پیر محمدعلی راجن شاہ صاحب کا شرف تلمذ حاصل تھا۔سید سخی اپنے وقت میں کئی ہزار طلبائ کودرس آل محمد ؑ دیا کرتے تھے۔توحید ، رسالت اور ولایت کا پرچار آپ کامشن تھا۔مولا علی ؑ کی ولایت کا پرچار کھلم کھلا کرتے تھے۔ آپ کی اولاد تحصیل کروڑ ، تحصیل لیہ، تحصیل تونسہ ڈیرہ غازیخان،رنگپور،ضلع مظفر گڑھ، بھکر اور اوچ شیر شاہ سید جلال میں آباد ہے۔ روضہ پاک علی راجن رحمۃ اللہ علیہ کی تعمیر اس روضہ کی ابتدائی تعمیر مغل باد شاہ ہمایوں نے 1554میں کروائی۔جسے بعد میں جلال الدین اکبر اعظم 1568میں کروایا۔یہ روضہ تقریبا ً 100فٹ اونچا ہے جس کی بیرونی گولائی 225فٹ ہے اور اندرونی گولائی 128فٹ ہے ۔اس کی بنیادوں کی گہرائی پانی کی سطح تک ہے۔روضہ کی عمارت کی چوڑائی آٹھ فٹ ہے۔روضہ پاک اندر سے ہشت پہلو ہے اور اندرونی حصہ اوپر گنبد سے گول دائرے کی صورت میں ہے۔اس روضہ کو مغل بادشاہوں نے بنوایا تھا۔ اس کا مستری اردن سے آیا تھا اور اس نے یہیں وفات پائی اور اس کی قبر سرکار کے دروازے کی دہلیز کے نیچے ہے۔روزہ کے لیے پتھر دور دراز علاقوں سے لائے گئے تھے اور ان کو چونے کے مصالحے سے بندکیا گیا ،اس کے اندر کی دیوار کچی اینٹوں اور گارے سے بنائی گئی تھی۔روضہ پاک کے سامنے کا چھجہ آج سے ایک سو سال پہلے موجود نہ تھا۔قدیم بزرگوں کا کہنا ہے کہ اس جگہ قبریں موجود تھیں اور ایک شہتیر والا چھوٹا سا چھپر ہوتا تھا۔اسکی تعمیر مخدوم سجادہ نشین سید کرم حسین شاہ صاحب کی اجازت سے سید اللہ بخش شاہ مرحوم آف بیٹ بوگھا نور پور نے 1325ئ میں شروع کروائی یہ کام آٹھ سال میں مکمل ہوا۔چھجہ لکڑی کا بنا ہوا ہے،کچھ ستوں اینٹوں اور چونے کے بنے ہوئے ہیں ، چند ایک لوہے کے بھی ہیں جو کہ20*27مربع فٹ جگہ پر محیط ہے۔
روضہ پاک کی گدی نشینی بیسویں صدی عیسوی کے آغاز میں متحدہ ہندوستان میں انگریزحکومت کے دور کی بات ہے اس وقت تک مخادیم حضرات اوچشریف حضرت پیر محمد علی راجن علیہ رحمت کے دربار کے گدی نشین اور متولی تھے،مشیت خدا اسی میں تھی کہ چونکہ وہ حضرات سید محمد علی راجن کے بڑے بیٹے سید علی زین العا بدین کی اولاد سے تھے اس لیے وہی گدی نشین تھے۔مگر چونکہ انہوں نے تقیہ اختیار کیا ہوا تھااور اس وقت سید زادہ مخدوم غلام علی شاہ صاحب کی اولاد سے سید کرم حسین شاہ صاحب کھلم کھلا عزاداری سید الشہدائ حضرت امام حسین ؑ کرتے تھے اس لیے انہوں نے دربار کا انتظام اور گدی نشینی کا اختیار اپنے ہاتھ میں لینا چاہا۔مخدوم سید زادہ جند وڈا شاہ آف بکھری احمد خان چونکہ وہ بھی مخدوم سید غلام علی شاہ صاحب کی اولاد تھے ان کے حمایتی ہو گئے اور عدالت کی طرف رجوع کیا گیاجہاں شجرہ نسب اور باقی ثبوت پیش کیے گئے اور عدالت سے فیصلہ مخدوم سید کرم حسین شاہ کے حق میں ہو گیا۔اور آج تک سادات خاندان کے پاس گدی نشینی آرہی ہے۔
موجودہ قصبہ علی راجن میں آمد اور حالات کا جائزہ جب سید زادہ یہاں تشریف لائے ان کو اپنے بزرگوں کی طرف سے حکم تھا کہ آپ اس علاقے کو مشرف بہ اسلام کریں چونکہ تمام سادت اولیائ کا مشن بھی یہی تھا۔جب سید یہاں آئے اور حالت کا جائزہ لیا تو یہ لوگ سرکش،خونخوار اور بد اطوار تھے،قتل و غارت کرنا ان کا شیوہ تھا۔سید زادے نے قریب تر ہو کر حالات کا جائزہ لیا ان کی زبان سیکھی ان کو اپنا دین سکھایا،سنایا اور سمجھایا،چونکہ یہ لوگ آسانی سے سمجھنے والے نہیں تھے،پہلے تو بہت مخالفت ہوئی لیکن اللہ تعالیٰ اپنے دین کی حفاظت اور مدد خود کرتا ہے ان لوگوں میں کوڑھ کی بیماری پھیل گئی یہ لوگ بہت پریشان تھے۔ایک دن ایک عورت اپنے بچوں کو ساتھ لے کر سید زادے کے آستانے کے پاس سے گزری اور جالوں کے درخت کے نیچے سرکار کے قریب آ بیٹھی،سرکار نے پوچھا تمہیں کیا مصیبت لا حق ہے؟ کہنے لگی با با سائیں اس کوڑھ کی بیماری نے ہمیں بہت ذلیل کر رکھا ہے آپ نے اس کے بچوں پر دم کیا اور پانی دیا وہ پیتے ہی صحت یاب ہو گئے۔اس عورت نے اپنے قبائل میں جا کر کہا وہ جو بزرگ تشریف لائے ہیں اس کی دُعا سے ہم صحت یاب ہو گئے ہیں ۔اس طرح بہت سے لوگوں کے دل آپ کی طرف مائل ہو گئے اور مسلمان ہو گئے۔سرکار نے اس طرح سوا لاکھ آدمیوں کو کلمہ توحید پڑھایا اور دین سکھایاجو باقی رہ گئے ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا کیونکہ دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔
والد محترم پیر محمد علی راجن شاہ سید حامد الحسینی الہندی رحمۃ اللہ علیہ آپ سید کیمیا ئ نظر کے فرزند ارجمند تھے۔آپ بی بی دولت خاتون بنت میاں شیر علی لنگاہ کے صاحبزادے تھے۔آپ نے بی بی وڈی بنت میاں دادن لنگاہ سے شادی کی۔جن سے محمد علی راجن شاہ سدھا بھاگ ،شاہ محمد اسماعیل بالا راجہ چنیوٹی،سید محمود شاہ، سید عبد اللہ شاہ،سید جلال شاہ لا ولد،سید زید شاہ لا ولد، سید قادر بخش شاہ لا ولد پید اہوئے۔ 933ھ،1526ئ میں سندھ کے حکمران شاہ حسن زرغوان نے اوچشریف پر کئی حملے کیے اور کئی بار مخلوق خدا کو تنگ کیا۔روز روز کے حملون سے تنگ آ کر مخدوم حامد الحسینی مع اہل و عیال ہجرت کر کے عیسیٰ خیل چلے گئے اور وہیں رحلت فرمائی۔ حضرت محمد علی راجن شاہ نے آپ کو اوچشریف میں دفن کیا۔
آپکی بیویاں اور اولادیں آپ نے دو مخدرات سے عقد فرمایا پہلی بیوی بی بی شاہ بنت مبارک خان لنگاہ جس کے بطن سے دو فرزند سید علی زین العا بدین اور شہزادہ حسن موسیٰ غوث پیدا ہوئے۔آپ کی دوسری شادی بی بی تلہوی بنت علاول خان سے ہوئی جس کے بطن سے سید غلام علی شاہ ، سید قاسم شاہ ( حضرت سید دامن دریا) اور ایک بیٹی سیدہ نرجس خاتون عرف بی بی حلیمہ پیداہوئیں ۔
حضرت سید زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ یہ سید زادہ حضرت پیرمحمد علی راجن علیہ رحمت کاصاحبزادہ ہے۔یہ والد بزرگوار کی طرح صاحب کرامت و تقویٰ بزرگ تھے۔آپ کا روضہ والد محترم کے ساتھ ہے۔آپ مجاہد کبیر بھی تھے آپ نے والدمحترم کے ساتھ تبلیغ دین میں پورا ساتھ دیا ۔جب مخدوم العالم بغرض تبلیغ دین تشریف لے جاتے تھے تو شہباز الہی تدریس،امامت نماز اور ملنے والوں کے لیے والدمحترم کی جیتی جاگتی تصویر تھے۔ آپ کی وفات 40سال کی عمر مین عیسیٰ خیل میں ہوئی۔آپ کے والد نے آپکو اپنے بزرگوں کے ساتھ اوچشریف میں دفن کرنا چاہا مگردریائی سفر کے دوران موجودہ قصبہ علی راجن جب پہنچے تو کشتی یہاں رک گئی۔آپ کے والد نے راز پروردگار سمجھا اور شاگردوں نے بھی بتایا اور موجودہ مقام پر دفن کر دیا۔ 



1 comment:

alirajan.com 2016. Powered by Blogger.